Punjabi Writer
Bahadur Shah Zafar
ہادر شاہ ظفر

Punjabi Writer
  

Poetry in Urdu Bahadur Shah Zafar

1. آگے پہنچاتے دہاں تک ختو پیغام کو دوست

آگے پہنچاتے دہاں تک ختو پیغام کو دوست
اب تو دنیا میں رہا کوئی نہیں نام کو دوست

دوست اکرنگ کہاں، جبکہ زمانہ ہے دو رنگ
که وہی صبح کو دشمن ہے، جو شام کو دوست

میرے نزدیک ہے واللہ، وہ دشمن اپنا
جانتا جو که ہے، اس کافرے خودکام کو دوست

دوستی مجھ سے جو اے دشمنے آرام ہوئی
نہ میں راحت کو سمجھتا ہوں، نہ آرام کو دوست

چاہتا وہ ہے بشر جس سے بڑھے ازتو کدر
پہلے موقوف کر تو اپنی تما خام کو دوست

اے 'ظفر'، دوست ہیں، آغازے ملاقات میں سب
دوست پر وہ ہی ہے جو شکھش ہو، انجام کو دوست

(دہاں=منھ، واللہ=ہے ایشور، کافرے خودکام=مطلبی،
بشر=آدمی، ردّ=ختم، تما خام=جھوٹھا لالچ)


2. آشنا ہے تو آشنا سمجھے

آشنا ہے تو آشنا سمجھے
ہو جو ناآشنا، تو کیا سمجھے

ہم اسی کو بھلا سمجھتے ہیں
آپ کو جو کوئی برا سمجھے

وصل ہے، تو جو سمجھے، اسے وصل
تو جدا ہے، اگر جدا سمجھے

جو زہر دیوے اپنے ہاتھ سے تو
تیرا بیمارے غم دوا سمجھے

ہو وہ بیگانہ ایک عالم سے
جسکو اپنا وہ دلربا سمجھے

اے ! "ظفر" وہ کبھی نہ ہو گمراہ
جو محبت کو رہنما سمجھے

(آشنا=دوست، وسل=ملاپ)


3. بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر وقرار
بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

چشم قاتل میری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسے اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

ان کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو
که طبیعت میری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی

عکس رخ یار نے کس سے ہے تجھے چمکایا
تاب تجھ میں ماۂ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی

کیا سبب تو جو بگڑتا ہے "ظفر" سے ہر بار
خو تیری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی

(تاب=چمک، ماۂ کامل=پرنما کا چاند،
خو=عادت)


4. بیچ میں پردہ دئی کا تھا جو ہایل اٹھ گیا

بیچ میں پردہ دئی کا تھا جو ہایل اٹھ گیا
ایسا کچھ دیکھا که دنیا سے میرا دل اٹھ گیا

شمع نے رو رو کے کاٹی رات سولی پر تمام
شب کو جو محفل سے تیری اے زیب محفل اٹھ گیا
میری آنکھوں میں سمایا اس کا ایسا نور حق
شوق نظارہ اے بدر کامل اٹھ گیا

اے 'ظفر' کیا پوچھتا ہے بےگناہ وبر گناہ
اٹھ گیا اب جدھر کو دستے قاتل اٹھ گیا

5. ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا

ہم نے دنیا میں آکے کیا دیکھا
دیکھا جو کچھ سو خواب سا دیکھا

ہے تو انسان خاک کا پتلا
لیکن پانی کا بل بلا دیکھا

خوب دیکھا جہاں کے خوباں کو
ایک تجھ سا نہ دوسرا دیکھا

ایک دم پر ہوا نہ باندھ حباب
دم کو دم بھر میں یاں ہوا دیکھا

نہ ہوئے تیری خاک پا ہم نے
خاک میں آپ کو ملا دیکھا
اب نہ دیجے "ظفر" کسی کو دل
که جسے دیکھا بےوفا دیکھا

(حباب=بلبلا)


6. ہم تو چلتے ہیں لو خدا حافظ

ہم تو چلتے ہیں لو خدا حافظ
بت کدے کے بتو خدا حافظ

کر چکے تم نصیحتیں ہم کو
جاؤ بس ناسیہو خدا حافظ

آج کچھ اور طرح پر ان کی
سنتے ہیں گفتگو خدا حافظ

بر یہی ہے ہمیشہ زخم پہ زخم
دل کا چاراغرو خدا حافظ

آج ہے کچھ زیادہ بیتابی
دل بیتاب کو خدا حافظ

کیوں حفاظت ہم اور کی ڈھونڈھیں
ہر نفس جب که ہے خدا حافظ

چاہے رخصت ہو راۂ عشق میں عقل
اے "ظفر" جانے دو خدا حافظ

(چاراغر=علاج کرنے والا)


7. جا کہیو ان سے نسیم سحر میرا چین گیا میری نیند گئی

جا کہیو ان سے نسیم سحر میرا چین گیا میری نیند گئی
تمہیں میری نہ مجھ کو تمہاری خبر میرا چین گیا میری نیند گئی

نہ حرم میں تمہارے یار پتہ نہ سراغ دیر میں ہے ملتا
کہاں جا کے دیکھوں میں جاؤں کدھر میرا چین گیا میری نیند گئی

اے بادشاۂ خوباں ج تیری موہنی صورت پہ قرباں
کی میں نے جو تیری جبیں پہ نظر میرا چین گیا میری نیند گئی

ہوئی بعد بہاری چمن میں عیاں گل بوٹی میں باقی رہی نہ فضا
میری شاخ امید نہ لائی ثمر میرا چین گیا میری نیند گئی

اے برق تجلی بحر خدا نہ جلا مجھے ہجر میں شمع سا
میری زیست ہے مثل چراغ سہ میرا چین گیا میری نیند گئی

کہتا ہے یہی رو رو کے "ظفر" میری آۂ رسا کا ہوا نہ اثر
تیرے ہجر میں موت نہ آئی ابھی میرا چین گیا میری نیند گئی
یہی کہنا تھا شیروں کو آج "ظفر" میری آۂ رسا میں ہوا نہ اثر
تیرے ہجر میں موت نہ آئی مگر میرا چین گیا میری نیند گئی

(نسیم سحر=صبح کی ہوا، بعد بہاری=بسنت کی ہوا،
عیاں=ظاہر، ثمر=پھل، برق تجلی=سندرتا کا پرکاش،
بحر خدا=خدا کے لئے، زیست=زندگی)


8. جو تماشا دیکھنے، دنیا میں تھے، آئے ہوئے

جو تماشا دیکھنے، دنیا میں تھے، آئے ہوئے
کچھ نہ دیکھا، پھر چلے، آخر وہ پچھتائے ہوئے

فرشے مخمل پر بھی مشکل سے جنہیں آتا تھا خواب
خاک پر سوتے ہیں اب وہ، پائوں پھیلائے ہوئے

جو مہیاٴ فناہستی میں ہے مسلے احباب
ہوتے ہیں اول سے ہی پیدا وہ کفنائے ہوئے

غنچے کہتے ہیں که ہوگا دیکھیئے کیا اپنا رنگ
جب چمن میں دیکھتے ہیں پھول کملائے ہوئے

غافلو !اس اپنی ہستی پر که ہے نقشے ب آب
موج کی مانند کیوں پھرتے ہو بل کھائے ہوئے

بے قدم نقشے قدم پہ بیٹھ سکتا ہے که ہم
آپ سے بیٹھے نہیں، بیٹھے ہیں بٹھلائے ہوئے

اے 'ظفر'، بےایبو رحمت اسکے کیونکر بجھ سکیں
نفسے سرکش کے جو یہ شولے ہیں بھڑکائے ہوئے

(مہیااےپھنا ہستی=مٹنے والی دنیا، احباب =دوست،
نقشے ب آب=پانی اور چترکاری، موج کی مانند=لہر کی طرح،
نفسے سرکش=برا سانس)


9. کہیں میں گنچا ہوں، واشد سے اپنے خود پریشاں ہوں

کہیں میں گنچا ہوں، واشد سے اپنے خود پریشاں ہوں
کہیں گوہر ہوں، اپنی موز میں میں آپ غلطاں ہوں

کہیں میں ساغرے گل ہوں، کہیں میں شیشۂ مل ہوں
کہیں میں شور قلقل ہوں، کہیں میں شورمستاں ہوں

کہیں میں جو شےوہشت ہوں، کہیں میں مہوے حیرت ہوں
کہیں میں آب رحمت ہوں، کہیں میں داغےاسیاں ہوں

کہیں میں برکے خرمن ہوں، کہیں میں ابر گلشن ہوں
کہیں میں اشکے دامن ہوں، کہیں میں چشمے گریاں ہوں

کہیں میں اکلے آرا ہوں، کہیں مجنونے رسواں ہوں
کہیں میں پیرے دانا ہوں، کہیں میں تفلے ناداں ہوں

کہیں میں دستے قاتل ہوں، کہیں میں حلقے بسمل ہوں
کہیں میں زہر ہلاہل ہوں، کہیں میں آبہیواں ہوں

کہیں میں سورے موزوں ہوں، کہیں میں بیدے مجنوں ہوں
کہیں گل ہوں 'ظفر' میں، اور کہیں خارے بیاباں ہوں

(واشد =کھیڑا، غلطاں=ویست، شیشۂ مل=جام، آب رحمت=مہر کی ورشہ،
داغےاسیاں=پاپ کا داغ، برکے خرمن=کھیت میں گرنے والی بجلی،
چشمےگریاں=روتی آنکھیں، اکلے آرا=بدھیمان، مجنونے رسوا=بدنام پاگل،
تفلے ناداں=ناسمجھ بچہ، آبہیواں=امرت، بیدے مجنوں=بٹیر کا پودھا)


10. کیجے نہ دس میں بیٹھ کر آپس کی بات چیت

کیجے نہ دس میں بیٹھ کر آپس کی بات چیت
پہنچیگی دس ہزار جگہ دس کی بات چیت

کب تک رہیں خاموش که ظاہر سے آپ کی
ہم نے بہت سنی کسناکس کی بات چیت

مدت کے بعد حضرت ناصح کرم کیا
فرمائیے مزاج مقدس کی بات چیت

پر ترک عشق کے لئے اظہار کچھ نہ ہو
میں کیا کروں نہیں یہ میرے بس کی بات چیت

کیا یاد آ گیا ہے "ظفر" پنجۂ نگار
کچھ ہو رہی ہے بند ومخمس کی بات چیت

(ناصح=اپدیشک، مقدس=پوتر)


11. لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں

لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپاییدار میں

بلبل کو باگباں سے نہ سییاد سے گلا
قسمت میں قید تھی لکھی فصلے بہار میں

کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

اک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں
کانٹے بچھا دیئے ہیں دل لالازار میں

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سویینگے کنجے مزار میں
کتنا ہے بدنصیب "ظفر" دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کو یار میں

(دیار=باغ،دنیا، عالم ناپاییدار=ناش وان دنیا، باغباں=مالی،
سییاد=شکاری، فصلے بہار=بسنت تو، شادماں=پریشان، دلےلالازار=
لالی بانٹتا دل،، دراز=لمبی، کنجے مزار=قبر کا کونہ، کو=گلی)


12. نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں که قرارشکیب ذرا نہ رہا

نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں که قرارشکیب ذرا نہ رہا
غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا

دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا
رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
تیرے رخ کے خیال میں کون سے دن اٹھے مجھ پہ نہ فتناٴ روز جز
تیری زلف کے دھیان میں کون سی شب میرے سر پہ ہجوم بلا نہ رہا

ہمیں ساغر بادہ کے دینے میں اب کرے دیر جو ساقی تو ہائے غضب
که یہ عہد نشات یہ دور طرب نہ رہیگا جہاں میں صدا نہ رہا

کئی روز میں آج وہ مہر لقا ہوا میرے جو سامنے جلوہ نما
مجھے صبر وقرار ذرا نہ رہا اسے پاس حجاب وحیا نہ رہا

تیرے خنجر وتیغ کی آب رواں ہوئی جب کے سبیل ستمزدگاں
گئے کتنے ہی قافلے خشک زباں کوئی تشنۂ آب بقا نہ رہا

مجھے صاف بتائے نگار اگر تو یہ پوچھوں میں رو رو کے خون جگر
ملے پاؤں سے کس کے ہیں دیدۂ تر کف پا پہ جو رنگ حنا نہ رہا

اسے چاہا تھا میں نے کے روک رکھوں میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کئے لاکھ فریب کروڑ فسوں نہ رہا نہ رہا نہ رہا نہ رہا

لگے یوں تو ہزاروں ہی تیر ستم کے تڑپتے رہے پڑے خاک پہ ہم
ولے ناز او کرشمہ کی تیغ دو دم لگی ایسی کے تسما لگا نہ رہا

'ظفر' آدمی اس کو نہ جانئیگا وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

13. نہیں جاتا کسی سے وہ مرز، جو ہے نصیبوں کا

نہیں جاتا کسی سے وہ مرز، جو ہے نصیبوں کا
نہ قائل ہوں دوا کا میں، نہ قائل ہوں تبیبوں کا

نہ شکوہ دشمنوں کا ہے، نہ ہے شکوہ ہبیبوں کا
شکایت ہے تو کسمت کی، گلا ہے تو نصیبوں کا

ہم اپنے کنجے غم میں نالا وفریاد کرتے ہیں
ہمیں کیا، گر چمن میں چہچہا ہے، اندلیبوں کا

جو زاہر پاس ہوں دن رات اور وہ دور ہوں دل سے
بئیدوں سے زیادہ حال سمجھو ان کریبوں کا

نہیں قالینوںنمگیرا سے مطلب، خاکساری کو
زمین و آسماں ہے فرشو خیمہ، ان غریبوں کا

کیا ہے بےادب خالق نے پیدا، اے 'ظفر' جنکو
کرے کیا فائدہ انکو، ادب دینا ادیبوں کا

(حکیم=ڈاکٹر، حبیب=دوست، اندلیب=بلبل،
بعید=دور والے، ادیب=ساہتیہ کار)


14. نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت گبار ہوں

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فضا مجھے سن کے کوئی کریگا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھوں کی پکار ہوں

میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فسل بہار ہوں

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بے قسی کا مزار ہوں

نہ میں ‘ظفر’ ان کا حبیب ہوں نہ میں ‘ظفر’ ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وا دیار ہوں

(مشت گبار=مٹھی بھر مٹی، خزاں=پت جھڑ، حبیب=دوست، رقیب=دشمن،
پئے فاتحہ=مرنے پر دکھ کے شبد پڑھنے کے لئے، نغمۂ جاں فضا=
منموہک گیت، بروگ=دکھ)


15. نہ رہی تابن تواں باقی

نہ رہی تابن تواں باقی
ہے فکت، تن میں ایک جاں باقی

شمع سا دل تو جل بجھا لیکن
ہے ابھی دل میں کچھ دھواں باقی

ہے کہاں کوہکن، کہاں مجنوں
رہ گیا نامے عاشقاں باقی

خاکےدلرفتگاں پہ رکھنا قدم
ہے ابھی سوزشے نیہاں باقی

کارخانے حیات سے تبے زار
ہے مگر گردے کارواں باقی

دم الفت ہے زندگی میری
ورنہ ہے مجھ میں وہ وہاں باقی

(تاب=ہمت، تواں=طاقت، فقط=کیول، خاکےدلرفتگاں=مرے ہوئے کی مٹی،
سوزشے نیہاں=چھپی جلن)


16. نصیب اچھے اگر بلبل کے ہوتے

نصیب اچھے اگر بلبل کے ہوتے
تو کیا پہلو میں کانٹے، گل کے ہوتے

جو ہم لکھتے تمہارا وسفے گیسو
تو مستر تار کے، سمبل کے ہوتے

جو ہوتا ظرف ساقی ہم کو معلوم
تو منت کش نہ جامعمل کے ہوتے

جتاتے مست گر نازک دماغی
تو برہم شور سے قلقل کے ہوتے

لگاتے شمع سی گر لو نہ تجھ سے
تو یوں آخر نہ ہم دھل دھل کے ہوتے

نہ ہوتے حضرت دل پابجنزیر
جو سودایی نہ اس کاکل کے ہوتے

(وسفے گیسو=بالوں کی تعریف،
سمبل=گھاس جیسا، ظرف=یوگیتا، برہم=غصہ)


17. نہ تو کچھ کفر ہے، نہ دیں کچھ ہے

نہ تو کچھ کفر ہے، نہ دیں کچھ ہے
ہے اگر کچھ، تیرا یقیں کچھ ہے

ہے محبت جو ہم نشیں کچھ ہے
اور اسکے سوا نہیں کچھ ہے

دیرو کعبہ میں ڈھونڈتا ہے کیا
دیکھ دل میں که بس یہیں کچھ ہے

نہیں پستو بلند یکساں دیکھ
که فلک کچھ ہے اور زمیں کچھ ہے

سرفرو ہے جو باغ میں نرگس
تیری آنکھوں میں شرمگیں کچھ ہے

برق کامپے نہ کیوں که تجھ میں ابھی
تاب آہے آتشیں کچھ ہے

راہے دنیا ہے، عجب رنگارنگ
که کہیں کچھ ہے اور کہیں کچھ ہے

(دیرو -کعبہ=مندر مسجد، پشتو بلند=اونچا نیچا،
ایک سا=برابر، فرو=جھکا ہوا، برق=بجلی)


18. روش گل ہے کہاں یار ہنسانے والے

روش گل ہے کہاں یار ہنسانے والے
ہم کو شبنم کی طرح سب ہے رلانے والے

سوجشے دل کا نہیں اشک بجھانے والے
بلکہ ہیں اور بھی یہ آگ لگانے والے

منھ پہ سب زردی رخسار کہے دیتی ہے
کیا کریں راج محبت کے چھپانے والے

دیکھیئے داغ جگر پر ہوں ہمارے کتنے
وہ تو اک گل ہیں نیا روز کھلانے والے

دل کو کرتے ہے بتاں، تھوڑے سے مطلب پہ خراب
اینٹ کے واسطے، مسجد ہیں یہ ڈھانے والے

نالے ہر شب کو جگاتے ہیں یہ ہمسایوں کو
بکھت کھوابیدا کو ہوں کاش، جگانے والے

خط میرا پڑھ کے جو کرتا ہے وہ پرجے پرجے
اے ‘ظفر’، کچھ تو پڑھاتے ہیں پڑھانے والے

(روش گل=پھول کی بھانتی، زردی روکھسار=
گالوں کا پیلاپن، راج=بھید، بکھت کھوابیدا=
سویا ہوا بھاگیہ، نالے=آہیں،)


19. تیرے جس دن سے خاک پا ہیں ہم

تیرے جس دن سے خاک پا ہیں ہم
خاک ہیں ایک کیمیا ہیں ہم

ہمدمو مسلے صورتتصویر
کیا کہیں تم سے، بیسدا ہیں ہم

ہم ہیں جوں زلفے آرزے خو
گو پریشاں ہے خوشنما ہیں ہم

جس طرف چاہے ہم کو لے جائے
جانتے دل کو رہنما ہیں ہم

جو که منھ پر ہے، وہ ہی دل میں ہے
مسلے آئینہ با صفا ہیں ہم

تو جو ناآشنا ہیا ہم سے
یہ گناہ ہے که آشنا ہیں ہم

اے ‘ظفر’ پوچھتا ہے ہم کو صنم
کیا کہیں بندۂ کھدا ہیں ہم

(بیسدا=بنا آواز، ناآشنا=
انجان)


20. تھے کل جو اپنے گھر میں وہ مہماں کہاں ہیں

تھے کل جو اپنے گھر میں وہ مہماں کہاں ہیں
جو کھو گئے ہیں یا رب وہ اوساں کہاں ہیں
آنکھوں میں روتے روتے نم بھی نہیں اب تو
تھے موج زن جو پہلے وہ طوفاں کہاں ہیں

کچھ اور ڈھب اب تو ہمیں لوگ دیکھتے ہیں
پہلے جو اے "ظفر" تھے وہ انساں کہاں ہیں

21. یا مجھے اپھسرے شاہانہ بنایا ہوتا

یا مجھے اپھسرے شاہانہ بنایا ہوتا
یا مجھے تاج گدایانہ بنایا ہوتا

خاکساری کے لئے گرچے بنایا تھا مجھے
کاش، کھاکے درےزنانہ بنایا ہوتا

نشۂ عشق کا گر جرپھ دیا تھا مجھ کو
عمر کا تنگ نہ پیمانہ بنایا ہوتا

دلےسدچاک بنایا تو بلا سے لیکن
جلپھے مشکیں کا تیرے شانہ بنایا ہوتا

تھا جلانا ہی اگر دوری ساقی سے مجھے
تو چراگے درےمیکھانا بنایا ہوتا

کیوں کھردمند بنایا، نہ بنایا ہوتا
آپنے خود کا ہی دیوانہ بنایا ہوتا

روز معمور دنیا میں خرابی ہے ‘ظفر’
ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہوتا

(تاج گدایانہ=سنتوں جیسا، جرپھ=شوق، دلسدچاک=
سو جگہ سے کٹا پھٹا دل، شانہ=کندھا،
کھردمند=بدھیمان)